پاک افغان بارڈر پر واقع انگورآدہ گیٹ کی بندش سے نہ صرف جنوبی وزیرستان بلکہ پورے علاقے کی معاشی صورت حال متاثر ہو رہی ہے۔ گیٹ کی بندش کے باعث جہاں 7 ہزار کے قریب مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں، وہاں قومی خزانے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس معاملے میں مقامی عوام کا موقف ہے کہ وزیر قبائل کے افراد دونوں طرف آباد ہیں، اس لیے ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر ان کی آمدورفت روایتی طور پر جاری رہنی چاہیے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ قانونی ضابطوں کے مطابق بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے آمدورفت غیر قانونی ہے، اور اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دوسری جانب، مقامی حلقے الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومتی حکام اس مسئلے کو حل کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گیٹ عوامی احتجاج کے باعث بند ہوا ہے، کیونکہ کچھ لوگ سمگلنگ کے لیے رعایت مانگ رہے تھے جو حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔
یہ گیٹ جنوبی وزیرستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کی بندش سے علاقے میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارتی سرگرمیوں میں کمی اور تاجروں کا کاروبار دیگر شہروں میں منتقل ہونا بھی اس بندش کا نتیجہ ہے۔ مقامی عوام اور تاجروں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ اس معاملے پر فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے۔
چند مخصوص پہلو جو انگورآدہ گیٹ کی بندش کے مسئلے سے جڑے ہیں، ان پر تفصیلی گفتگو کی جا سکتی ہے
معاشی نقصان اور بے روزگاری
گیٹ کی بندش کا سب سے بڑا اثر مقامی معیشت اور روزگار پر پڑا ہے۔ 7 ہزار مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں، جو پہلے بارڈر پر تجارت اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ تھے۔ اس کے علاوہ، حکومت کو کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہو رہا ہے کیونکہ گیٹ کے ذریعے ہونے والی تجارت رک گئی ہے۔
بندش کے باعث مقامی تاجروں نے اپنی کاروباری سرگرمیاں ملک کے دیگر شہروں کی طرف منتقل کرنا شروع کر دی ہیں، جس سے جنوبی وزیرستان میں معاشی سرگرمیاں مزید سست ہو گئی ہیں۔ اس سے علاقے میں مہنگائی بڑھ رہی ہے کیونکہ تجارتی اشیا کی فراہمی محدود ہو گئی ہے۔
عوام اور حکومت کے مابین ویزا اور پاسپورٹ کی شرط پر اختلاف ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ وزیر قبائل کے لوگ صدیوں سے اس بارڈر کے دونوں طرف آباد ہیں اور ان کی نقل و حرکت ویزا یا پاسپورٹ کے بغیر روایتی طور پر جاری رہی ہے۔
تاہم، حکومت نے بین الاقوامی قوانین اور سیکیورٹی وجوہات کے پیش نظر ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر آمدورفت کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اس قانونی اور روایتی تضاد کو حل کرنا حکومت اور مقامی قیادت دونوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔
ایک اور اہم پہلو سمگلنگ کا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گیٹ کی بندش کی ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ افراد سمگلنگ کے لیے رعایت مانگ رہے تھے۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ سمگلنگ کو روکا جائے گا اور تجارتی سرگرمیاں قانونی دائرے میں ہی ہوں گی۔
عوامی حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ گیٹ کی بندش کو بہانہ بنا کر حکومتی افسران سمگلنگ کے مسئلے کو ہوا دے رہے ہیں، جبکہ سمگلنگ مقامی معاشی حالات کی وجہ سے پھل پھول رہی تھی۔ اس پہلو پر دونوں فریقین کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
انگورآدہ گیٹ جنوبی وزیرستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں سے تجارتی سامان کی آمدورفت جنوبی وزیرستان کے بیشتر تجارتی مراکز کے لیے بہت اہم ہے۔ گیٹ کی بندش کے باعث علاقائی تجارتی مراکز بند ہو گئے ہیں، اور لوگوں کو روزمرہ اشیائے خوردونوش سمیت دیگر سامان کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
حل کی ضرورت اور حکومتی کردار
موجودہ حالات میں علاقے کے عوام اور تاجروں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اقدامات اٹھائے تاکہ گیٹ کو دوبارہ کھولا جا سکے اور معاشی بحران سے نمٹا جا سکے۔ حکومت کو قانونی اور سیکیورٹی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی مشکلات کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔
عوامی مطالبات اور حکومتی قوانین کے بیچ توازن قائم کرنا ایک مشکل لیکن ضروری قدم ہے۔ علاقے میں پائیدار ترقی اور امن کے لیے اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا ضروری ہے۔