180

وزیرستان کی مخدوش صورتحال پرعوام کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان پر تنقید۔

اہل علاقہ کی جانب سے وزیرستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان جنگجووں کی بھی تصدیق۔

کالعدم ٹی ٹی پی نے اہل علاقہ کو پھر سے اپنے زیر تسلط لانے کیلئے مختلف اقدامات شروع کررکھے ہیں جس سے خطے میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔

خصوصی رپورٹ

اسلام آباد (خراسان ریسرچ سنٹر )جنوبی وزیرستان کے علاقے بدر میں سیکورٹی فورسز پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملے سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد جنوبی وزیرستان کے علاقہ بدر میں مستقل امن کیلئے اہل علاقہ کی جانب سے 4 دن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مگر قومی مشران ،ضلعی انتظامیہ اور مقامی میڈیا کا اس حوالے سے خاموش کردار رہا ۔

مظاہرے سے مقامی سیاسی رہنماوں نے دوران تقاریر وزیرستان میں بدامنی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

مقامی سیاسی قیادت نے دوران تقاریر اپنے خیالات کے اظہار میں تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔

قیادت کی جانب سے پختون خواہ خصوصاً وزیرستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کے ذمہ دار افغان طالبان کو ٹہرایا۔

دوران تقاریر مقامی سیاسی قیادت نے تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور محسود کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ نے پہلے بیس سال اسلام کے نفاذ کیلئے جہاد کے نام پر جنگیں لڑی لیکن جب مزاکرات کی میز سجی تو آپ نے یہ مطالبہ کیا کے قبائلی علاقہ جات کے انضمام کے فیصلے کو واپس لیکر برطانیہ کے وضع کردہ سیاہ قوانین چالیس ایف سی آر کو بحال کیا جائے جب کے یہ مطالبہ آپ کے جہاد اور اسلامی شرعی نظام کے بلکل خلاف تھا۔

ان کی جانب سے افغان طالبان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست دینے میں اس خطے میں اگر سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں تو وہ وزیرستان کے باشدگان خصوصاً محسود قوم نے دی ہے اب جب آپ کو افغانستان کی حکومت ملی تو آپ کو چاہیئے تھا کے آپ اس علاقے کے باشندگان محسود قوم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے لیکن آپ نے افغان باشندوں کو وزیرستان بھیج کر وزیرستان میں ایک مرتبہ پھر سے بدامنی کی ایک نئی لہر شروع کرواکر اہل وزیرستان کو ایک بار پھر سے اپنے علاقے سے نقل مکانی پر مجبور کروایا۔

تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کا پروفائل فوٹو

احتجاجی شرکاء نے سیکیورٹی فورسز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
شرکاء کی جانب سے آمن وآمان کے قیام کے لئےآئی جی ایف سی ساوتھ کے ساتھ مسائل اور مطالبات پر بات چیت کے لئے قومی مشران اور مختلف علاقوں سے کمیٹیاں تشکیل دیکراس عظم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرستان میں مستقل امن کے قیام کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قد آور سیاسی و سماجی شخصیت ایڈوکیٹ شیرپاو محسود نے احتجاجی مظاہرے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نورولی نے حکومت سے دوران مزاکرات شرعی نظام کے بجائے ایف سی آر قوانین کی واپسی کا مطالبہ کیا جو افسوسناک ہے اس پر میں مفتی نورولی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی علماء سے پوچھو کہ اگر ایف سی آر قوانین پر عمل درآمد کرواتے آپ کی موت واقع ہوگئی تو یہ موت کیسی ہوگی۔ ٹی ٹی پی کے ہمراہ افغان طالبان کے جنگجوں کو مخاطب کرتے ہوئے شیرپاو محسود نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ سمیت نیٹو سے افغان طالبان کی فتح یا آزادی میں محسود قوم کا اہم کردار تھا امریکہ کو افغانستان میں شکست دینے کے لئے پہلاخودکش حملہ آور بھی محسود تھا اور آخری خودکش حملہ آور بھی محسود تھا اب یہاں آکر سیکیورٹی فورسز پر حملے کرکے بدآمنی نا پھلایا کرو۔

May be an image of one or more people, speaker, violin and crowd
بدر امن دھرنا کی تصویر

جنوبی وزیرستان سے گزشتہ انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کیلئے بطور امیدوار حصہ لینے والے مشہور سیاسی شخصیت ملک سعید انور محسود نے دوران تقریر کہا کہ دھرنے اور احتجاج سے اگر مسائل حل ہوتے تو مسئلہ فلسطین و کشمیر اب تک حل ہوجاتا۔ اب ہمیں سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہونگے ۔بنوں میں احتجاج کی وجہ سے جب حکومت پر پریشر پڑا تو ڈیرہ میں (سرینڈر طالبان) آمن کمیٹیوں کے دفاتر ختم کرکے اسکو وزیرستان بھیج دیا گیا اس سے ہمیں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ وزیرستان میں کوئی قانون نہیں ہے کیا وزیرستان میں انسان نہیں رہتے ۔ ملک سعید انور محسود نے مزید کہا کہ میں نے یہ بات کئی سال پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری سردار نجیب شہید کی شہادت کے وقت بھی کی تھی اور آج پھر کہہ رہا ہوں ہو کہ محسود قوم کی طرف سے ایک جرگہ کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نورولی کے پاس بھیج دیتے ہے اور اسے پوچھ لیتے ہے کہ جو لوگ آپ کے ہٹ لسٹ پر ہے انکے نام اور گناہ ہمیں بتائے اگر اسکو معاف کروانے کے لئے کوئی راستہ نکلتا ہے تو ہم نکال لینگے اگر وہ ناقابل معافی ہے تو کم ازکم ہمیں انکے جرم کا پتا تو ہوگا کل کو اگر آپ ان کو قتل کروگے تو ہمیں کوئی افسوس تو نہیں ہوگا.

پاک فوج دنیا کی طاقتور ٹاپ ٹین افواج میں شامل

احتجاجی دھرنے سے قبائلی مشر جے یو آئے کے سابقہ سنیٹر رہ جانے والے مولانا صالح شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام مسائل کا حل بات چیت اور مذاکرات میں ہے ہمیں بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا چاہئیے ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی اس واقعے کے حوالے سے خیبر پختون خواہ کے وزیراعلی علی امین گنڈہ پور کا سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے بدر واقعے اور اس کے بعد پیدا شدہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بدر میں جانی و مالی نقصانات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کے علاقے میں امن و امان کے قیام کیلئے سیکورٹی فوسرز کی جانب سے بہترین اقدامات کئے جارہے ہیں اور بہت جلد صورتحال پر قابو پاکر نقل مقانی کرنے والوں کی واپسی یقینی بنائی جائیگی۔ وزیراعلی علی امین گنڈہ پور نے کہا کہ نقصان کے ازالے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی جس کیلئے وہاں سے ممبر صوبائی اسمبلی آصف محسود کو بطور نمائندہ وزیراعلی خیبر پختون خواہ بھیجا جارہا ہے جسکے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی آصف محسود اور ممبر قومی اسمبلی پاکستان تحریک انصاف زبیر وزیر بدر پہنچ گئے دھرنے میں شرکت کرنے کے بعد احتجاجی دھرنے کے کمیٹی کے ہمراہ مطالبات منوانے کے لئے مذاکرات کی کوشش کی

جنوبی وزیرستان کے علاقے بدر میں سیکورٹی فورسز پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملے سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد جنوبی وزیرستان کے علاقہ بدر میں مستقل امن کیلئے اہل علاقہ کی جانب سے 4 دن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مگر قومی مشران ،ضلعی انتظامیہ اور مقامی میڈیا کا اس حوالے سے خاموش کردار رہا ۔

ذرائع کے مطابق ایم این اے زبیر وزیر اور ایم پی اے آصف محسود سمیت دھرنے مذاکراتی کمیٹی نے مقامی طالبان کمانڈر کے ساتھ بھی ملاقات کی مگر احتجاجی مظاہرے کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی، اس موقع پر سنیٹر صالح شاہ نے مداخلت کرکے احتجاجی مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان دھرنا کمیٹی جس میں ایم این اے زبیر ،ایم پی اے آصف ،تحصیل چئیرمین شاہ فیصل ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے گل بدین ،ملک سعید انور،شمس محسود ،رحمت شاہ، شیرپاو ایڈوکیٹ و دیگر شامل تھے نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان مذاکرات کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس میں احتجاجی مظاہرین کے وزیرستان میں مستقل آمن، آبادی کی طرف ڈرون حملوں کی پروازوں پر پابندی، سیکیورٹی فورسز پرحملے کی صورت میں مقامی آبادیوں کی طرف مارٹر گولے فائر کرنے سمیت غیر ضروری مقامی افراد کو حملے کے بعد تنگ نہ کرنے پر مشتمل مطالبات پر سیکیورٹی فورسز نے عمل درآمد کی یقین دہانی کرانے کے بعد احتجاجی مظاہرہ ختم کردیا گیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پر حملے کے حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستان سیکیورٹی فورسز کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے اب تک باضابطہ طور پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا مگر علاقے سے مقامی لوگوں کے نقل مکانی کی خبریں سامنے آنے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان عمر خراسانی نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے بدر اور آس پاس دیگر علاقوں سے فوج نے ظالمانہ طور پر اہل علاقہ کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا ہے ـ افواج پاکستان نے پہلے سے ہی ایک درجن سے زائد آپریشنز کر رکھے ہیں، دوسری طرف وزارت داخلہ و خارجہ اور آئی ایس پی آر آئے روز یہ دعوے کرتے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجووں افغانستان میں ہیں تو پھر علاقے میں آپریشن کس کے خلاف کیا جا رہا ہے ؟ تحریک طالبان پاکستان نے اپنے جاری کردہ بیان میں مزید کہا ہے کے ہمارے جنگجووں جنوبی وزیرستان سمیت ملک پاکستان کے مختلف اضلاع کے اندر ہی موجود اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں ،پاکستان کا افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے وجود کا دعویٰ بے بنیاد اور من گھڑت ہے ـ

No photo description available.
تمام مسائل کا حل بات چیت اور مذاکرات میں ہے ہمیں بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا چاہئیے ہیں ،مولانا صالح شاہ

چیغہ نیوز نے بدر واقعے اور پختونخواہ خصوصاً وزیرستان میں دہشت گردی سے متعلق علاقائی رہائشیوں سے گفتگوں کرنے کی کوشش کی جس میں ایک علاقائی ملک نے چیغہ نیوز کو بتایا کہ افغانستان میں امارات اسلامیہ کی حکومت کے قیام کے بعد وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کی منظم انداز میں واپسی ہوئی اور علاقے میں جرگوں سمیت مختلف علاقائی مسائل میں مداخلت اور عوام کے ساتھ روابط قائم کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جسکی وجہ سے مختلف علاقوں میں بے روزگاری کے شکار نوجوانان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ منسلک ہوکر انکے لئے کام کرنا شروع کر دیا ۔ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان کی بھی ایک بڑی تعداد وزیرستان کے مختلف علاقوں میں آگئی جسکی وجہ سے وزیرستان میں سیکورٹی فورسز اور سیکیورٹی فورسز کے لئے کام    کرنے والے افراد پر حملوں میں تیزی لائی گئی ہے جسکی وجہ سے آمن وآمان کے صورتحال خراب ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے میں ٹی ٹی پی کا مضبوط تسلط قائم ہوا۔

مقامی افراد نے تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں کے ہمراہ افغان جنگجوں کی کثیر تعداد میں آمد کو تشویشناک عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ہر دس میں سے پانچ یا چار جنگجووں کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے جسکے ساتھ علاقے کے لوگوں نا واقف ہے اور ان جنگجوں کا رویہ بھی مقامی لوگوں کے ساتھ بہت منفی رہتا ہے معمولی باتوں پر مقامی افراد کی تذلیل ،ان پر تشدد یہاں تک کہ قتل کرنے کے واقعات میں افغان جنگجوں کے متعدد واقعات مختلف علاقوں میں سامنے آچکی ہے ۔بدر واقعہ کے بعد چار دنوں تک جاری رہنے والے احتجاجی دھرنے میں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمعیل خان میں طالبعلمی کے دوران ایسے واقعات پر احتجاجی مظاہرے کے زریعے شہرت کی بلندی اور بین القوامی سطح پر پی ٹی ایم جیسے تحریک کے قیام اور انکی کئی سالوں سے سربراہی کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والے منظور پشتین نے اپنے ضلع میں آمن کے لئے جاری دھرنے میں عدم شرکت کے وجوہات جاننے کے لئیے چیغہ نیوز کو پی ٹی ایم کے مقامی قیادت کی جانب سے بتایا گیا کہ منظور پشتین 11اکتوبر کو ہونے والے پختون عدالت کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف سیاسی قائدین کو دعوت دینے اور دیگر انتظامات میں مصروفیت کی وجہ سے دھرنے میں شرکت نہیں کر سکے ۔

منظور پشتین - News Cloud

قبائلی اضلاع اور افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے چیغہ نیوز نیٹ ورک کے سربراہ قبائلی صحافی ملک حیات اللہ محسود نے بدر واقعے کے حوالے سے چیغہ نیوز کو بتایا کہ وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کی واپسی کے بعد محسود قوم کی مقامی سیاسی و مذہبی لیڈر شپ اور علاقائی عمائدین نے خاموش رہنے کے بجائے لب کشائی کرتے ہوئے کھل کر سیکیورٹی فورسز، افغان طالبان،کالعدم ٹی ٹی پی کو بھر پور تنقید کا نشانا بنایا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنقیدی سلسلہ آنے والے وقتوں میں بھر پور مزاحمت کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ملک حیات اللہ محسود کا کہنا تھا کہ ایک بات واضح ہے کہ وزیرستان میں قیام امن کے لئے سنجیدہ لوگوں کی جانب سے منظم انداز میں کوشیشیں شروع ہوچکی ہیں جسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ آنے والے دنوں

No photo description available.
وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کی واپسی کے بعد محسود قوم کی مقامی سیاسی و مذہبی لیڈر شپ اور علاقائی عمائدین نے خاموش رہنے کے بجائے لب کشائی کرتے ہوئے کھل کر سیکیورٹی فورسز، افغان طالبان،کالعدم ٹی ٹی پی کو بھر پور تنقید کا نشانا بنایا ،ملک حیات اللہ محسود

میں امن و امان کے لئے قومی سطح پر کوئی ٹھوس فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دھرنے میں وزیرستان کے تمام مقامی سیاسی قیادت بشمول ایم این اے اور ایم پی اے کی شرکت وزیرستان میں پارلیمانی سیاسی شعور کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے مگر ساتھ میں افسوس کی بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر ہر جرگے میں قوم کی نمائندگی کرنے والے اور قوم کے نام پر مراعات حاصل کرنے والے محسود قوم کے نامی گرامی ملکان نے نہ تو اس دھرنے میں شرکت کی اور نہ انکا کوئی موقف میڈیا پر سامنا آیا ۔ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اس دھرنے میں مختلف شرکاء نے پاکستان حکومت کے افغان طالبان کے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کی تائید کرتے ہوئے نہ صرف افغان جنگجوں کے وزیرستان میں موجودگی بلکہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں بھی انکو ملوث قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نورولی پر بھی شدید تنقید اب کسی کے یہ سوال اٹھانے کا جواز بھی ختم کردیا کہ وزیرستان میں جو بھی احتجاجی مظاہرہ ہوتا ہے اس میں صرف سیکیورٹی فورسز پر تنقید ہوتی ہے جبکہ ٹی ٹی پی پر کوئی بھی تنقید نہیں کرتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں