اسلام آباد (خراسان ریسرچ سنٹر )گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی سے کلعدم تحریک طالبان پاکس اغواہ ہونے والے پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل خالد اور ان کے دو بھائی اسسٹنٹ کمشنر آصف اور نادرا آفیسر فہد امیر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے قید سے رہا ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں نے مذکورہ مغویوں کو اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا.تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مغویوں کی ویڈیوبھی جاری کی گئ تھی جس میں انہوں اپنی اغوائیگی کی کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ہاتوں تصدیق کی تھی ۔جاری ویڈیو بیان میں مغویوں نے خود کو اغوا کاروں کی جانب سے محفوظ مقام پر منقلی کے بیان کے ساتھ حکومت پاکستان سے اغوا کاروں کے مطالبات کو ماننے اور اپنی رہائ کے اقدامات کو یقینی بنانے کا پیغام بھی دیا تھا۔
۔
کچھ قیدیوں کے رہائی سمیت تاوان کا مطالبے کی اطلاعات سامنے آئی تھی ۔ مطالبہ پورا کیا گیا مگر پاکستان حکومت کے زیر قید مسلم باغ اور لطیف کی رہائی کے مطالبہ کو رد کر دیا گیا مگر پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے پریس ریلیز نے کالعدم تحریک طالبان کو تاوان دینے کے خبروں کی تردید کردی ۔آئی ایس پی آر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق لیفٹنٹ کرنل خالد امیر اور
مغویوں کی رہائ کیلئے حکومت پاکستان کی جانب سے ایک قبائلی جرگہ تشکیل دیا گیا جس کے ذریعے اغوا کاروں سے مغویوں کی رہائ کیلئے اقدامات شروع کئے گئے۔
ابتدائ معلومات کے مطابق اغوا کاروں کی جانب سے حکومت پاکستان کو مغویوں کی بازیابی کیلئے شرائط میں قیدیوں کے تبادلے کی شرائط بھی رکھی گئ جس میں کلعدم تحریک تحریک طالبان پاکستان کے اغوا کاروں نے کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے اہم کمانڈر مسلم باغ اور لطیف محسود کی رہائ سمیت تاوان کی رقم شامل تھی تھی۔مسلم باغ اور لطیف محسود تحریک طالبان پاکستان کا شمار تحریک طالبان کے اہم رہنماوں میں ہوتا ہے جو پاکستانی حراست میں ہے۔ان کے علاوہ قیدیوں کی فہرست میں دیگر مزید نام بھی شامل تھے۔کلعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مغویوں کی رہائ کے بدلے تاوان کی رقم کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
اغوا کاروں کی جانب سے مغویوں کے بدلے اپنے اہم کمانڈرز مسلم باغ اور لطیف محسود کی حوالگی کا مطالبہ حکومت پاکستان کیلئے ناقابل عمل تھا ۔حکومت پاکستان مسلم باغ اور لطیف محسود جیسے اہم ترین کمانڈرز کی رہائ سے بہت بڑی سبکی کی سامنا کرسکتی تھی جس کی وجہ سے اغوا کاروں کی جانب سے مغویوں کے بدلے مسلم باغ اور لطیف محسود کی رہائ کے مطالبات کو رد کیا گیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق کالعدم تحریک طالبان سے مغویوں کی رہائ کے بدلے کسی بھی مطالبے کو پورا کرنے کی خبروں کی تردید کی گئ ہے ۔
آئی ایس پی آر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق لیفٹنٹ کرنل خالد امیر اور ان کے 3رشتہ داروں کی رہائی قبائلی عمائدین اور مقامی معززین کے بدولت ممکن ہوئی ۔جاری پریس ریلیز میں آئی ایس پی آر نے تمام مغویوں کی بحفاظت گھر واپس پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
خراسان ریسرچ سنٹر کو مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس اغوا کاری کاروائی کو سرانجام دینے والے کالعدم تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں کا تعلق گنڈہ پور گروپ سے تھا جسکو کمانڈر ضرار گروپ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ٹی ٹی پی گنڈہ پور گروپ یا ضرار گروپ کی جانب سے اس سال یہ دوسری بڑی اغوا برائے تاوان کی کاروائ سامنے آئ ہے۔ اس سے پہلے اپریل2024 میں جنوبی وزیرستان میں تعینات ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاکراللہ کو بھی اغوا کیا گیا تھا جسکی رہائی تعاون کے عوض ممکن ہوئی تھی ۔
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئیر(ر) محمود شاہ نے سنو ایف ایم ریڈیوں میں ایک پروگرام کے دوران پاکستان تحریک انصاف پر یہ الزام عائد کیا کہ گنڈہ پور گروپ تحریک انصاف کا میلیٹنٹس ونگ ہے ۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے مذکورہ مغویوں کے رہائی کے لئے مطالبات میں شامل پاکستان حکومت کے زیر حراست لطیف محسود اور مسلم خان کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو خراسان ریسرچ سنٹر کو مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق لطیف محسود کا شمار ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈرز سمیت سابقہ ٹی ٹی پی کے امیر حکیم اللہ محسود کے اہم ہم راز ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
لطیف محسود کا تعلق جنوبی جنوبی وزیرستان کی تحصیل سراروغہ سے ہے جسکو اکتوبر 2013میں امریکی فوج نے افغانستان کے مشرقی صوبہ لوگر میں ڈرامائی کاروائی کرتے ہوئے افغان فوج سے اپنے قبضے میں لے لیا تھا ۔بی بی سی کیمطابق افغان حفیہ ادارے کے اہلکاروں نے لطیف محسود کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بطور معاون کا کردار ادا کرنے کے لئیے راضی کیا تھا جبکہ خراسان ریسرچ سنٹر کے مطابق لطیف محسود ٹی ٹی پی اور افغان حکومت کے مشترکہ پاکستان مخالف اتحاد کے سلسلے میں افغان سیکیورٹی حکام سے ملاقات کیلئے جارہے تھے کے راستے میں امریکی فوج نے افغان سیکیورٹی فورسز کے حصار سے ان کو گرفتار کرکے تحویل میں لے لیا تھا۔
اس واقعے کے بعد اس وقت کے افغان صدر حامد کرزائی نے امریکی فوج کے اس اقدام پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ایک ملاقات میں اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا۔
لطیف محسود کو بعد ازآں جولائی 2014 کو پاکستانی حکام کے مطالبے پر پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا جو اب تک حکومت پاکستان کے زیر حراست ہے ۔
حکومت پاکستان کے زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر مسلم خان کا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے سوات کی تحصیل کبل سے ہے ۔
1954کو سوات میں پیدا ہونے والے مسلم خان کا شمار سوات کے تحریک نفاذ شریعت کے بانیوں میں ہوتا ہے۔
مسلم خان تعملیمی قابلیت کے ساتھ ،پشتوں ،اردو،انگریزی اور فارسی زبان پر عبور رکھتے تھے۔
کلعد تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد تحریک نفاذ شریعت کے دیگر رہنماوں کے ساتھ مسلم خان نے بھی ٹی ٹی ہی میں شمولیت اختیار کر لی۔
مسلم خان نے کلعدم ٹی ٹی پی کیلئے بطور ترجمان خدمات بھی سرانجام دی ہے۔
مسلم خان کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ستمبر 2009میں مینگورہ کے نواحی علاقے سے گرفتار کیا۔
دسمبر 2016میں مسلم خان کو فوجی عدالت نے مختلف جرائیم میں ملوث ہونے کی وجہ سے سزائے موت کا فیصلہ سنایا تاہم مئی 2017میں انکی بیوی کی طرف سے ہائی کورٹ میں دائر سزا معطلی کے درخواست پر مختصر مدت کے لئیے انکی سزائے موت معطل کر دی گئی تھی ۔