نثار احمد محسود
حکومت نے حال ہی میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے فوج اور ایف سی کی تعیناتی کی منظوری دی ہے جو کہ ایک سال کے لیے مؤثر ہے۔ اس فیصلے کو سیکیورٹی کے موجودہ چیلنجز کے پیشِ نظر ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ ان صوبوں میں دہشت گردی عسکریت پسندی جیسے مسائل کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے باعث امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے۔ تاہم اس اقدام کے کئی پہلو ہیں جن پر عوامی اور سیاسی سطح پر مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ان علاقوں میں دہشت گردی اور عسکریت پسند گروپوں کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سیکیورٹی کی صورتحال میں بہتری کے لیے فوج اور ایف سی کو بلائے۔ موجودہ حالات میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے اکثر علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کے حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور پولیس کے محدود وسائل کے پیشِ نظر فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ فوری ردعمل کے لیے اہم تصور کیا جا رہا ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کیے جا سکیں۔ان علاقوں میں فوج اور ایف سی کی موجودگی سے عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہوگا۔ دہشت گردی کی لہر کے باعث عوام میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے اور فوجی تعیناتی سے عوام کو اطمینان حاصل ہوگا کہ ان کی حفاظت کے لیے ریاست سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ فوجی دستے فوری ردعمل کے قابل ہوتے ہیں اور کسی بھی بڑے حادثے یا دہشت گرد حملے کے بعد فوری طور پر کارروائی کر سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی سے امن و امان کے مسائل پر فوری قابو پایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کئی دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں جو کہ منظم نیٹ ورکس میں کام کر رہے ہیں۔ فوج اور ایف سی کی تعیناتی سے ان گروپوں کے خلاف سخت اور منظم کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔
تاہم کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فیصلہ طویل المدتی حل فراہم نہیں کرتا کیونکہ یہ سول اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے فوجی اداروں پر انحصار کو بڑھاتا ہے۔ پولیس اور مقامی سول ادارے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے زیادہ مؤثر ہو سکتے ہیں اگر انہیں مزید وسائل اور اختیارات دیے جائیں۔
اس فیصلے پر بعض سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ سول حکومت کا فوج پر اس طرح کا انحصار جمہوری اقدار کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ پولیس کو مزید تربیت اور وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ وہ امن و امان کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
کچھ انسانی حقوق کے کارکنوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فوج اور ایف سی کی تعیناتی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ سکتی ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں جن میں یہ کہا گیا کہ فوجی تعیناتی سے بعض اوقات شہری آزادیوں پر اثر پڑتا ہے۔
اس فیصلے پر مختلف سیاسی رہنماؤں نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ این ڈی ایم کے چیئر مین محسن داوڑ جو کہ ایک نامور سیاسی رہنما ہیں نے حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “امن و امان کا دیرپا حل سول اداروں کی مضبوطی میں ہے نہ کہ عارضی فوجی تعیناتی میں۔” ان کے مطابق پولیس اور دیگر ادارے اگر وسائل سے لیس ہوں تو وہ بھی موثر انداز میں کام کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے اس فیصلے کا جزوی خیرمقدم کیا ہے تاہم ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومت کو پولیس اور مقامی سول اداروں کی مضبوطی پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کے مطابق “فوجی تعیناتی صرف عارضی حل فراہم کرتی ہے جبکہ سول ادارے مضبوط ہوں گے تو امن و امان کا مسئلہ دیرپا حل ہو سکے گا۔” ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس اور دیگر سول اداروں کو مضبوط بنانے سے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو زیادہ پائیدار اور موثر بنایا جا سکتا ہے۔
مجموعی طور پر اس فیصلے کو سیکیورٹی کے موجودہ چیلنجز کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے تاہم تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ وقتی حل فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ فوج اور ایف سی کی موجودگی سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے مگر طویل المدتی حل کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اور دیگر سول اداروں کو مزید تربیت وسائل، اور اختیارات فراہم کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیس کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مالی معاونت اور تربیت کا اہتمام کرے تاکہ مستقبل میں سیکیورٹی کے مسائل کو خود حل کیا جا سکے۔
فوج اور ایف سی کی تعیناتی سے عارضی طور پر تو امن و امان کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے لیکن اس پر انحصار دیرپا حل فراہم نہیں کرے گا۔ سول اداروں کی مضبوطی اور مقامی پولیس کی صلاحیت میں اضافہ ہی امن و امان کو برقرار رکھنے کا اصل اور مستقل حل ہے۔ اگر حکومت ان اداروں کی مضبوطی پر بھی توجہ دے تو یہ فیصلہ زیادہ موثر اور پائیدار ثابت ہو سکتا ہے