79

”ٹانک شہر کی بگڑتی صورتحال“ سرکاری دفاتر کا انخلا اور عوامی حقوق کا نقصان

ٹانک شہر کے قلب میں جنوبی وزیرستان کے اکاونٹس آفس پر حملے میں ایک پولیس نوجوان کی شہادت نے نہ صرف دل دہلا دیا بلکہ اس واقعے نے کئی سنگین سوالات بھی جنم دیے ہیں۔ ایسے واقعات میں بارہا پولیس اور عسکری اداروں کے نوجوانوں کے ساتھ عام شہری بھی نشانہ بنتے ہیں، لیکن اس بار یہ حملہ کسی مخصوص ادارے تک محدود نہیں رہا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خطے میں ایک ایسی منصوبہ بندی جاری ہے جس کے تحت سول اداروں کو بھی نشانہ بنا کر انہیں بند یا منتقل کرنے کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔

دیرپا حل تلاش نہ کیے جانے سے عدلیہ، گومل یونیورسٹی کیمپس اور پولیس ڈپارٹمنٹس کے بعد دیگر سرکاری اداروں کو بھی دھیرے دھیرے ڈیرہ اسماعیل خان یا پشاور کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان مقامی عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے، جنہوں نے یہاں اپنے گھروں، کاروباروں، اور زندگیوں کو تعمیر کرنے کے لیے خون پسینہ بہایا ہے۔ یہ ادارے، جن کا مقصد عام شہریوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے، علاقے سے منتقل ہونے کے بعد مقامی سطح پر نہ تو عوام کو انصاف ملتا ہے، نہ ہی تعلیم اور پولیس سے تحفظ کی امید رہتی ہے۔ نتیجتاً، خطے میں عوامی سہولتوں کا خلا بڑھتا جا رہا ہے، جو کہ مقامی آبادی کے لیے ایک نیا امتحان بن کر سامنے آ رہا ہے۔

ریاستی ذمہ داروں پر لازم ہے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لے کر بتائیں کہ اگر انہیں ان شہروں کو خالی کرنا ہی ہے، تو یہ اعلان کھل کر کیا جائے تاکہ عوام کو کم از کم اپنی نقل مکانی کی تیاری کا وقت تو ملے۔ ان کے لیے محض ایک یقین دہانی ہی کافی نہیں؛ بلکہ ضروری ہے کہ ریاستی ادارے ان شہروں کی حفاظت اور بحالی کے لیے موثر اقدامات کریں۔ بصورت دیگر، جس طرح ٹانک اور آس پاس کے علاقوں میں لاقانونیت اور بدامنی بڑھ رہی ہے، اس سے خدشہ ہے کہ یہاں کے لوگ مجبور ہو کر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ٹانک اور جنوبی وزیرستان کے عوام کو ان حالات میں دھکیلنا ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی توہین ہے۔ آج جب عوام نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے اپنے شہر میں موجود سرکاری دفاتر تک محفوظ نہیں ہیں، تو یہ سوال مزید شدت اختیار کر گیا ہے کہ آخر عوام کی حفاظت کی ذمہ داری کس پر ہے؟ پولیس اور عسکری اداروں کے نوجوانوں کی جانوں کی قربانی دینے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریاست عوام کی حفاظت کے عزم سے پیچھے ہٹ جائے۔

خطے میں امن و استحکام کی واپسی کے لیے ضروری ہے کہ ریاست، سول اور عسکری ادارے مل کر اس خطے میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں اور عوام کو اعتماد میں لے کر مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کریں۔ اس کے بغیر یہ خطہ شاید مزید بحرانوں اور انسانی نقصانات کا سامنا کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں