جنوبی وزیرستان، خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع میں حالیہ دنوں ایک نئی تشویش سامنے آئی ہے۔ اپر جنوبی وزیرستان کے علاقوں، خاص طور پر کاروان مانزہ اور اس سے ملحقہ سڑکوں کے کنارے، “داعش کی آمد مرحبا” جیسے نعروں کے ساتھ دیواروں پر وال چاکنگ دیکھنے میں آئی ہے۔ اس چاکنگ میں داعش کے حق میں اور علاقے میں ان کی ممکنہ موجودگی کو خوش آمدید کہنے والے نعرے درج ہیں۔
وال چاکنگ: ایک نئی انتہا پسندی کی علامت؟
وال چاکنگ کا یہ سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب جنوبی وزیرستان پہلے ہی دہشت گردی اور شدت پسندی کا شکار رہا ہے۔ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی سرگرمیاں اس خطے کو غیر مستحکم کر چکی ہیں، اور اب داعش کی موجودگی کے آثار تشویش کے باعث بن رہے ہیں۔ داعش کی جانب سے کی گئی یہ وال چاکنگ، جس میں مقامی آبادی کو ان کی آمد پر خوش آمدید کہنے پر اُکسایا گیا ہے، علاقے میں نئے انتہاپسند گروہوں کے قدم جمانے کے اشارے دے رہی ہے۔
داعش کی خطے میں ممکنہ موجودگی
اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ داعش کے ارکان واقعی جنوبی وزیرستان میں موجود ہیں یا نہیں، لیکن وال چاکنگ جیسے واقعات شدت پسندی کے فروغ کا آغاز ہو سکتے ہیں۔ یہ واقعہ یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا داعش جیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں؟ ماضی میں جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی اضلاع طالبان اور دیگر گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں رہی ہیں، جو شدت پسند تنظیموں کے لیے آسان راستہ فراہم کرتی ہیں۔
علاقائی سکیورٹی پر اثرات
داعش کے حق میں یہ وال چاکنگ پاکستان کی سکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ایک سنگین چیلنج کی علامت ہے۔ جنوبی وزیرستان میں پہلے سے موجود شورش زدہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، داعش کی ممکنہ آمد مزید عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے ہی اس خطے میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں، لیکن داعش جیسی تنظیموں کی موجودگی ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
حکومتی ردعمل اور مستقبل کے چیلنجز
اب تک حکومتی سطح پر اس وال چاکنگ کے حوالے سے کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن یہ واقعات مقامی اور قومی قیادت کو خطے میں سکیورٹی کے اقدامات کو مزید مضبوط کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ وزیرستان میں عسکری کارروائیاں اور سکیورٹی چیک پوسٹوں کا قیام پہلے سے موجود ہیں، لیکن داعش جیسے گروہوں کی ممکنہ موجودگی ان اقدامات کو دوبارہ جانچنے کی ضرورت پیدا کرتی ہے۔
نتیجہ
جنوبی وزیرستان میں داعش کی وال چاکنگ ایک نیا اور خطرناک رخ ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ داعش واقعی وہاں موجود ہے یا نہیں، لیکن اس طرح کے واقعات مستقبل میں عسکریت پسند گروہوں کے فروغ کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال کا فوری اور سنجیدگی سے جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ جنوبی وزیرستان میں مزید شدت پسندی کا خاتمہ کیا جا سکے۔