71

زندگی، طعنے اور ایک المیہ

زندگی ایک خوبصورت تحفہ ہے، لیکن بعض اوقات یہ بوجھ بن جاتی ہے، خاص طور پر جب اپنوں کے طعنے اور بے رخی زخموں سے گہری چوٹ لگا دیں۔ سعودی عرب کے شہر حائل میں ایک نوجوان نے اپنے بھائی کے طعنوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ جاتے جاتے، اس نے اپنی آخری وصیت ایک کاغذ پر لکھ دی۔ وہ چند جملے نہیں، بلکہ ایک چیخ تھی، ایک زخمی دل کی آخری فریاد تھی۔

“اے دوستوں! میں ایسی کیفیت میں ہوں کہ بیان نہیں کر سکتا۔ اپنے بھائی اور باپ کے طعنوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ دنیا میں جینا اب بوجھ لگتا ہے۔ ہر انسان سے خوف محسوس ہوتا ہے، آئینے میں خود کو دیکھ کر بھی دھوکہ لگتا ہے۔ طعنہ کس قدر اہمیت رکھتا ہے، یہ ہر کوئی جانتا ہے۔ میں خود پر نادم نہیں، مگر اپنے بھائی پر افسوس ہے کہ میں دنیا سے جا رہا ہوں۔”

یہ چند سطریں صرف ایک نوٹ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے الفاظ کسی کی زندگی کو کس حد تک متاثر کر سکتے ہیں؟ ہم طعنوں اور تنقید کے نشتر برساتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ شاید سامنے والا پہلے ہی کئی زخم سہہ رہا ہو؟

مرنے سے پہلے آخری لیٹر

طعنے: ایک خاموش قاتل

niños haciendo burlas Stock Illustration | Adobe Stock
فوٹو : adobe stock

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں الفاظ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کی ناکامی پر طنز، کسی کی کمزوری پر طعنہ، اور کسی کی جدوجہد کو کمتر ثابت کرنا ہماری عادت بنتی جا رہی ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے یہی الفاظ کسی کی جان لے سکتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس تکلیف کا اندازہ لگایا جو ہمارے طعنوں سے دوسروں کو پہنچتی ہے؟

اگر کوئی سنتا!

شاید اگر اس نوجوان کی بات سنی جاتی، اگر اس کے درد کو سمجھا جاتا، اگر اسے حوصلہ دیا جاتا تو آج وہ زندہ ہوتا۔ وہ اکیلا نہیں تھا، لیکن خود کو تنہا محسوس کرتا رہا۔ یہ سانحہ ہمیں ایک لمحے کے لیے جھنجھوڑتا ہے کہ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں۔ کیا ہم اپنے قریبی لوگوں کے جذبات اور احساسات کا احترام کرتے ہیں؟ یا پھر ہم بھی کسی نہ کسی طرح انہیں ایسے ہی الفاظ کے زہر میں دھکیل رہے ہیں؟

بدلتی سوچ، بچتی زندگیاں

یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رویے بدلیں۔

  • ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کے جذبات کی قدر کریں۔
  • اگر کوئی مایوس ہے تو اسے مزید دکھی کرنے کے بجائے سہارا دیں۔
  • کسی کے خوابوں کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کا حوصلہ بڑھائیں۔
  • اگر کوئی تکلیف میں ہے تو اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔

یہ کالم صرف ایک واقعہ کا تجزیہ نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی کسی کو ایسے مقام پر پہنچا دیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔

کاش، وہ نوجوان آج بھی زندہ ہوتا، کاش، کسی نے اس کی چیخ سن لی ہوتی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں