63

آئی ایس آئی کا ’سیاسی سیل‘ کس نے قائم کیا ؟مظہر عباس نےاہم تفصیلات شیئر کر دیں

کراچی (خصوصی رپورٹ ) فیض حمید کے ’’کورٹ مارشل‘‘ میں سب کیلئے سبق ہے، چارج شیٹ میں سب سے اہم الزام کیا ہے ،فیصلہ کب اور کیا آتا ہے اِس کا انتظار شاید طویل نہ ہو۔آئی ایس آئی کا ’سیاسی سیل‘ کس نے قائم کیا ، بائیں بازو کی سیاست کو ’کرش‘ کرنے کی ریاستی پالیسی کب بنی ،سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نےاہم تفصیلات شیئر کر دیں۔

“جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان “ایک تھے ’جنرل فیض حمید‘” میں مظہر عباس نے لکھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے ’’کورٹ مارشل‘‘ میں سب کیلئے سبق ہے، یہ مقدمہ ہماری سیاسی تاریخ کے اہم ترین مقدمات میں سے ایک ہے کیونکہ برسہا برس سے ہمارے یہاں یہ بحث عام ہے کہ امورِ مملکت میں مقتدرہ کا سیاسی کردار نہیں ہونا چاہئے اور اب تو خود اُن کی طرف سے بار بار یہ واضح اعلان بھی آتا رہا ہے کہ ’سیاستدان اپنے معاملات خود حل کریں بات چیت کے ذریعے‘۔جنرل فیض حمید اپنے وقت کے طاقتور ترین افسر تھے جو تسلسل تھے اُس پالیسی کا جو ہمیں سیاست میں مسلسل مداخلت کی نظر آتی ہے جنرل حمید گل سے لے کر آج تک۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر درست ہے کہ آئی ایس آئی کا ’سیاسی سیل‘ سابق سویلین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں ایک خط کے ذریعے قائم کیا جس کا بنیادی مقصد اُس وقت کی اپوزیشن کی سب سے مؤثر جماعت بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی کو دبانا اور اُس حوالے سے خبریں جمع کرنا تھا حالانکہ یہ کام ہمیشہ سے اٹیلی جنس بیورو یا سپیشل برانچ کا رہا ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کو ’کرش‘ کرنے کی ریاستی پالیسی قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی بنا لی گئی تھی اور یہ بات مجھے ایک بار اسی پالیسی کے اہم کردار سابق بیورو کریٹ مرحوم روئیداد خان نے بتائی تھی کہ کیمونسٹ پارٹی پر پابندی، سرخ پوش تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن، جگتو فرنٹ کی مشرقی پاکستان میں جیت کو قبول نہ کرنا، آزادیٔ صحافت پر پابندی یہ سب اُسی سلسلے کی چند کڑیاں ہیں خود مجھے سابق صوبہ سرحد میں اس پالیسی پر عمل درآمد کیلئے بھیجا گیا تھا۔

کالم میں مظہر عباس نے مزید لکھا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ میں سب سے اہم الزام سیاست میں مداخلت کا ہے نہ صر ف جب وہ حاضر سروس تھے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاست میں حصہ لینے کی پابندی کی بھی خلاف ورزی کی۔ نہ جانے کیوں جب اِس ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل‘ کی خبر سنی تو مجھے ’ڈان لیکس‘ اور سابق سینیٹر حاصل بزنجو مرحوم یاد آئے،جنرل گل کا 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد بنانا اور پھر اعتراف کرنا اور پھر تاریخی اصغر خان کیس یاد آئے ۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنے صحافی ساتھی اور اینکر حامد میر پر حملہ اور اُس کے بعد جو کچھ جیو اور جنگ کے ساتھ ہوا وہ یاد آیا۔ نہ جانے کیوں مجھے نامور اینکر ارشد شریف یاد آیا۔ جسے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پھر بیرونِ ملک ہی شہید کر دیا گیا۔ کردار بدلتے رہے مگر سیاست میں مداخلت کے نتائج ہمیں جمہوریت اور آزادیٔ اظہار سے دور کرتے چلے گئے۔ آج بھی صحافت پر سخت پالیسی بنائی جا رہی ہے۔

کالم کے آخر میں مظہر عباس نے لکھا کہ حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی کے زیادہ تر سربراہوں پر مجموعی طور پر الزام رہا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں چاہے وہ جنرل پاشا ہوں یا جنرل رضوان۔ جنرل نوید مختار ہوں یا جنرل ظہیر الاسلام ۔بس اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے نتیجے میں کوئی واضح پالیسی بھی ’عدم مداخلت‘ کی سامنے آئے گی یا بس ایک فرد کو سزا ہو گی۔ خیر ابھی تو معاملہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کا ہے مگر 9مئی کی تفتیش میں اگر جنرل فیض کے حوالے سے بات آئے گی اور سابق وزیراعظم عمران خان اور جنرل فیض کا کردار سامنے آتاہے تو معاملہ سنجیدہ بھی ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ بات ’سول نافرمانی‘ پر جاتی ہے یا پھر یہ ’سول فرمانی‘ میں بدل جاتی ہے تاہم اب تک 15دسمبر کی ڈیڈلائن گزرنے کے باوجود خاموشی ہے۔ کوئی یومِ احتجاج بھی نہیں منایا گیا۔ تاہم ’سانحہ ڈی چوک‘ پر کئی صحافی اور یوٹیوبرز کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی پچھلی حکومت کے دور میں لایا ہوا ’پیکا۔ 2016‘ کا کالا قانون اب اپنی بدترین شکل میں لایا جا رہا ہے۔ غور کریں تو یہ اُسی کا تسلسل ہے جو تحریک انصاف کے دور میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری لاگو کرنے والے تھے اب یہ تاج موجودہ وزیر عطار تارڑ پہننےجا رہے ہیں۔

آج جنرل فیض کو کورٹ مارشل کے کٹہرے میں کھڑا دیکھ کر مجھے اپنے جامعہ کراچی کے دوست حاصل برنجو کی وہ سینٹ کی تاریخی تقریر اور مجھ سے گفتگو بہت یاد آرہی ہے جب اُسے واضح اکثریت کے باوجود چیئرمین سینٹ نہیں بننے دیا گیا اور محترم صادق سنجرانی فیضاب ہوئے۔ ’’مجھے شکست سینیٹروں کے ہاتھوں نہیں ہوئی بلکہ جنرل فیض کے ہاتھوں ہوئی‘‘۔ اب پتا نہیں جنرل فیض یہ اعتراف کریں گے یا نہیں اور وہ بھی جو اسے ’’ضمیر کے ووٹ‘‘ کہتے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں