44

دنیا کا وہ جاندار جو 500 برسوں تک زندہ رہ سکتا ہے

ایک انسان کتنے عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے، اس بارے میں تو کچھ کہنا مشکل ہے مگر سائنسدان طویل العمری کے راز جاننے کے لیے کافی عرصے سے تحقیقی کام کر رہے ہیں۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کونسا جاندار ہے ایک یا 2 نہیں بلکہ 500 برسوں تک زندہ رہ سکتا ہے؟

یقین کرنا مشکل ہوگا مگر گرین لینڈ شارک وہ جاندار ہے جو 5 صدیوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔

شمالی بحر اوقیانوس اور آرکٹک اوشین کی گہرائی میں ٹھنڈے پانیوں میں رہنے والی شارک کی یہ قسم صدیوں تک زندہ رہتی ہے اور سائنسدانوں نے ان کی لمبی عمر کے بارے میں اب جاننا شروع کیا ہے۔

سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس شارک کا سست رفتار میٹابولزم ان کی لمبی عمر کا باعث بنتا ہے مگر اب تک اس تعین کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔

2016 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ گرین لینڈ شارک دنیا میں سب سے زیادہ عرصے تک زندہ رہنے والا فقاریہ جاندار ہے۔

کچھ کی عمر 400 سال ہوتی ہے مگر کچھ شارکس ایسی بھی ہیں جو 500 سال سے زائد عرصے تک بھی زندہ رہ سکتی ہیں۔

اب ایک نئی تحقیق میں ان کی طویل العمری کے میکنزم کے راز جاننے کی کوشش کی گئی۔

سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے گرین لینڈ شارک کے جینوم کا نقشہ تیار کیا اور اس کے ڈین این اے کے سیکونس نے اس طویل العمر جاندار کے اندرونی افعال کے بارے میں کافی کچھ بتایا۔

اس تحقیق کے نتائج ایک پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے ہیں اور اس میں بتایا گیا کہ بہت کم جاندار ہیں جو انسانوں سے زیادہ عرصے تک زندہ رہتے ہیں، بالخصوص اگر ہمارے جسمانی وزن اور حجم کا موازنہ کیا جائے۔

محققین کے مطابق گرین لینڈ شارک کی طویل العمری کے میکنزمز کو سمجھنے سے انسانوں کی عمر میں بھی اضافہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ گرین لینڈ شارکس بہت سست روی سے بڑی ہوتی ہیں اور ایک سال میں ان کی لمبائی میں محض ایک سینٹی میٹر سے بھی کم اضافہ ہوتا ہے۔

یہ شارکس بتدریج 6 میٹر لمبی ہو جاتی ہے اور ان کا جینوم غیرمعمولی حد تک بڑا ہوتا ہے۔

یہ جینوم انسانوں سے دوگنا بڑا ہوتا ہے اور سائنسدانوں کی جانب سے یہ تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ جینوم کے بڑے ہونے سے شارکس کی عمر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان کے خیال میں بڑے جینوم کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شارک کی یہ قسم اپنے ڈی این اے کی مرمت کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ان شارکس کے جینوم کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ جمپنگ جینز پر مشتمل ہوتا ہے، جو ڈی این اے سیکونس کے اندر حرکت کرکے اپنی نقول بنا سکتے ہیں۔

محققین کے مطابق گرین لینڈ شارکس کے جینز ڈی این اے کی مرمت کرتے ہیں اور خود کو جینوم میں تقسیم کرکے متاثرہ ڈی این اے کو ٹھیک کرکے عمر میں اضافے کی رفتار سست کر دیتے ہیں۔

محققین کی جانب سے گرین لینڈ شارک کے ڈی این اے پر مزید تحقیقی کام کیا جا رہا ہے جبکہ وہ اس کے جینوم کا موازنہ شارکس کی دیگر اقسام اور مختصر مدت تک زندہ رہنے والی مچھلیوں سے بھی کریں گے۔

اس سے قبل جولائی 2024 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ گرین لینڈ شارکس کی طویل عمر کی وجہ میٹابولزم میں کبھی تبدیلیاں نہ آنا ہے۔

میٹابولزم ایک ایسا کیمیائی عمل ہے جس کے ذریعے جسم غذاؤں میں موجود اجزا کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور ٹشوز کی مرمت کرتا ہے۔

زیادہ تر جانداروں کے میٹابولزم کی رفتار عمر بڑھنے کے ساتھ گھٹ جاتی ہے جس کے نتیجے میں جسمانی توانائی بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے جبکہ نئے خلیات بننے اور پرانے خلیات کی مرمت کا عمل بھی سست ہو جاتا ہے۔

گرین لینڈ شارکس کے میٹابولزم کی جانچ پڑتال کے لیے سائنسدانوں نے 23 شارکس کے مسلز کے نمونوں کا جائزہ لیا۔

پھر انہوں نے 5 مختلف enzymes کے سرگرمیوں کا تجزیہ مسلز کے نمونوں میں کیا تاکہ میٹابولک ریٹ اور ردعمل کا علم ہوسکے۔

اس کے بعد انہوں نے جسمانی لمبائی کی بنیاد پر شارکس کی عمر کا تخمینہ لگایا۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ہر عمر میں گرین لینڈ شارکس کے میٹابولزم کی رفتار یکساں رہتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ زیادہ تر جانداروں کا میٹابولزم عمر بڑھنے کے ساتھ سست ہو جاتا ہے مگر گرین لینڈ شارکس کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔

محققین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ شارکس میں بڑھاپے کی روایتی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں