390

نومہ وڑائی قبائل،گوہر محسود

چیغہ نیوز نیٹ ورک کے اردو سروس کا قبائلی اضلاع کا مختلف شعبوں میں کامیاب شخصیات کی حوصلہ افزائی اور اسکی شخصیت کے بارے میں مستند معلومات پر مبنی تفصیلات سامنے لانے کے لئیے جاری سلسلے”نومہ وڑائی قبائل“میں آج ہم جس شخصیت کا تعارف آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں اس کا نام گوہر محسود ہے۔گوہر محسود اسلام آباد میں صحافتی فرائض کی سرانجام دہی کے ساتھ ساتھ صحافت میں نمایا مقام رکھتے ہیں۔صحافی گوہر محسود کی زندگی پر مبنی ایک زبردست کہانی جانیئے کے سلسلے میں چیغہ نیوز اردو کو حاصل شدہ معلومات کے مطابق

گوہر محسودقبائلی علاقوں کا روشن ستارہ اور بے باک صحافی ہے

گوہر محسود کا اصل نام گوہر رحیم ہےجو پاکستان کے صحافتی افق پر ایک نمایاں اور بااثر نام ہیں۔ ان کی جدوجہد اور کامیابیوں کی کہانی صرف ایک قبائلی صحافی کی نہیں بالکہ دہشت گردی کے شکار قبائلی علاقوں کے لوگوں کی آواز بننے اور ان کے مسائل کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے والے شخصیت کی داستان ہے۔ گوہر محسود کا تعلق پاکستان کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا سے ہے، اور ان کی قومیت کا تعلق محسود قبیلے کے ذیلی شاخ گرڑائی سے ہے۔

ابتدائی زندگی، تعلیم

PHOTO : Wolfgang Borrs

گوہر محسود نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز جنوبی وزیرستان کے پسماندہ گاؤں سیگہ سے کیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے میٹرک اور گریجویشن مکمل کی۔ بعد ازاں، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا اور امریکہ کے Peirce کالج سے ملٹی میڈیا میں ڈگری حاصل کی۔

نام کی تبدیلی اور شناخت کی جدوجہد

جب گوہر 2007 میں اسلام آباد آئے تو انہیں محسود قبیلے پر لگنے والے دہشت گردی کے الزامات کا سامنا تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنے نام کے ساتھ “محسود” کا لاحقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گوہر محسود کے مطابق نام کے ساتھ محسود لکھنے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا تاکہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ محسود قبیلہ دہشت گرد نہیں بلکہ ایک عزت دار اور امن پسند قوم ہے۔

صحافتی سفر

گوہر محسود نے عملی طور پر صحافت کا آغاز اسلام آباد سے کیا جہاں انہوں نے تقریباً 15 سال سے زائد عرصہ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ کام کیا۔ ستمبر 2024’کو تیسری مرتبہ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری منتخب کئے گئے، جو ان کی قیادت اور خدمات کا اعتراف ہے۔صحافتی مشکلات اور استقامت
گوہر محسود کے صحافتی سفر کے دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی دنوں میں اسلام آباد میں سفارش نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سخت معاشی مسائل کا سامنا تھا۔ تاہم، ان کی محنت اور استقامت نے انہیں کامیاب بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ان مشکلات کو صبر و استقامت کے ساتھ نہ جھیلتے تو شاید آج اس مقام پر نہ ہوتے۔پختون جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے نام قوم پرستی کے تاثر دینے کے مطالق
گوہر محسود نے چیغہ نیوز اردو کو بتایا کہ پختون جرنلسٹ ایسوسی ایشن کا مقصد قوم پرستی نہیں، بلکہ پختون صحافیوں کو یکجا کرکے ان کے آبائی علاقوں کے مسائل کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنا ہے۔ ان کی تنظیم کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ قبائلی علاقوں کے مسائل کو قومی میڈیا پر اجاگر کیا اور حکومت کو ان مسائل کی جانب متوجہ کیا۔

PHOTO : LINKDIN

بین الاقوامی سطح پر خدمات

گوہر محسود نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں رپورٹنگ کی ہے، اور عسکریت پسندی سمیت قبائلی اضلاع کے مسائل پر اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے 2023 میں بین الاقوامی صحافت کی ممبرشپ حاصل کی، جو پاکستان میں بہت کم صحافیوں کو حاصل ہے۔

۔ (PTM) کا بنیاد رکھنے میں کردار

گوہر محسود پشتون تحفظ مومنٹ (PTM) کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے۔ اسلام آباد میں نقیب اللہ محسود قتل کیس کے بعد ہونے والے احتجاج میں انہوں نے قبائلی نوجوانوں کو منظم کیا اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ہونے والے دھرنے کے انعقاد کے لئیے بنیادی کر دار ادا کیا جس کے نتیجے میں PTM کا آغاز ہوا اور اس تحریک نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پختونوں کے مسائل کو اجاگر کرنے سمیت اس تحریک کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں سے متعدد پشتون سیاسی رہنما پارلیمنٹ تک پہنچنے کے علاوہ منظور پشتین ،علی وزیر اور محسن داوڑ جو بین القوامی سطح پر پہچانے جانے والے پشتون سیاسی لیڈروں میں اضافہ ہوا

عسکریت پسندی پر تنقید

گوہر محسود نے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی اور حکومت کی پالیسیوں پر ہمیشہ کھل کر تنقید کی ہے۔ انہوں نے میڈیا اور پارلیمنٹ کے ذریعے قبائلی عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ۔ان کی بے باک صحافت کی وجہ سے انہیں جسمانی اور نفسیاتی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑنے کے علاوہ صحافت کئیرئیر میں بھی کئی مشکلات کا سامنا رہا۔پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے گوہر محسود کو پاکستانی نیوز چینل میں آف ائیر کرنے کی پابندی کا سامنا رہا۔

قبائلی ثقافت اور فاٹا انضمام پر موقف

گوہر محسود قبائلی ثقافت سے گہری محبت رکھتے ہیں اور فاٹا انضمام کے مخالف ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنا ایک جلد بازی اور مقامی قبائل کی رائے کے بغیر کیا گیا فیصلہ تھا، جو ان کے خیال میں قبائلی عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔

چیغہ نیوز اردو سروس کے “نومہ وڑائی قبائل” کے سلسلے کے دوران معلومات کے حصول کے دوران حاصل شدہ معلومات کے مطابق گوہر محسود کی زندگی قبائلی علاقوں کے عوام کے لیے ایک مثال ہے۔ وہ ایک ایسے صحافی ہیں جو قبائلی علاقوں کے مسائل کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ ان کی بے باک صحافت، اصول پسندی اور قبائلی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ان کی جدوجہد انہیں پاکستان کے ممتاز صحافیوں میں شامل کرتی رہی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں