تجزیہ : نثار احمد محسود
ڈی جی آئی ایس پی آر کا حالیہ بیان جس میں یہ سوال کیا گیا کہ کیا پشتون سرزمین پر موجود قدرتی وسائل انہیں وراثت یا جہیز میں ملے ہیں ایک سوالیہ بیانیہ ہے جو متعدد سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف پشتون عوام کے حقوق کو مشکوک بناتا ہے بلکہ ملک میں غیر ضروری تنازعات اور غلط فہمیوں کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
پشتون علاقوں میں قدرتی وسائل کی موجودگی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ صدیوں سے یہ علاقے قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس معدنیات اور دیگر قدرتی ذخائر کا مرکز رہے ہیں۔ ان وسائل کا تعلق یہاں کی زمین اور یہاں کے لوگوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ وسائل کسی دوسری جگہ سے لاکر یہاں رکھے نہیں گئے بلکہ یہ اس علاقے کی تاریخی وراثت کا حصہ ہیں۔ اس لیے یہ سوال اٹھانا کہ آیا یہ وسائل پشتونوں کو وراثت میں ملے ہیں یا نہیں حقیقت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کا آئین یہ واضح طور پر کہتا ہے کہ قدرتی وسائل پر پہلا حق ان علاقوں کے مقامی لوگوں کا ہوتا ہے۔ آرٹیکل 172 کے تحت ریاست کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ قدرتی وسائل کی تقسیم میں مقامی عوام کے حقوق کو مدنظر رکھے اور ان کی ترجیحات کا احترام کرے۔ آئین کے مطابق کسی بھی علاقے کے قدرتی وسائل پر پہلا حق اس علاقے کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ اس لیے ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان نہ صرف آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ اس سے عوام میں ایک غیر ضروری تنازعہ اور غلط فہمی بھی جنم لے سکتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان نے پشتون عوام میں ایک ایسی سوچ کو جنم دیا ہے جس سے انہیں لگتا ہے کہ ان کے وسائل کے حق کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید ریاست ان کے وسائل پر ان کا حق تسلیم نہیں کرتی اور یہ کہ انہیں اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ یہ بیانیہ نہ صرف عوامی سطح پر غم و غصے کو بڑھا سکتا ہے بلکہ ملک میں انتشار اور عدم اعتماد کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ ایسے بیانات قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان نے پشتون عوام میں ناراضگی پیدا کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سوال اٹھا کر ان کے حقوق کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ ان وسائل پر ان کا حق تاریخی اور آئینی لحاظ سے مسلمہ ہے۔ عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ریاست ان کے حقوق کو تسلیم کرے اور ان کے وسائل کو مقامی لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال میں لایا جائے۔
اس طرح کے بیانات سے بچتے ہوئے حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ مقامی لوگوں کو ان کے وسائل کے استعمال اور تحفظ میں شامل کیا جانا چاہیے اور ان کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ اقدامات نہ صرف عوام میں اعتماد پیدا کریں گے بلکہ قومی یکجہتی کو بھی مضبوط بنائیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ سوالیہ بیانیہ نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ پشتون عوام کے آئینی اور قانونی حقوق کے حوالے سے ایک منفی پیغام بھی دیتا ہے۔ اس قسم کے بیانات سے بچتے ہوئے ملک میں یکجہتی بھائی چارے اور اعتماد کی فضا کو فروغ دینا چاہیے۔ پشتون علاقوں کے وسائل پر مقامی لوگوں کا حق ہے اور ان کے حقوق کو تسلیم کرکے ہی ملکی سطح پر حقیقی امن و امان اور ترقی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے