43

“افغانستان کا تجارتی انحصار پاکستان سے کم ہو کر چین بھارت اور ایران پر بڑھتا جا رہا ہے”

تجزیہ:نثار احمد محسود

افغانستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت، جو کہ 2024ء کے پہلے 10 ماہ میں 650 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے، خطے میں اقتصادی تعلقات کی ایک اہم مثال ہے۔ افغانستان کی وزارت صنعت و تجارت کے مطابق، اس حجم میں 447 ملین ڈالر کی افغان برآمدات اور 203 ملین ڈالر کی درآمدات شامل ہیں۔ بھارت کو افغانستان کی برآمدات میں انجیر زعفران کشمش زیرہ اور بادام جیسی اہم زرعی اشیاء شامل ہیں جبکہ بھارت سے افغانستان بنیادی طور پر چینی اور صنعتی خام مال درآمد کرتا ہے۔ یہ تجارتی سرگرمیاں اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ افغانستان اپنے علاقائی تجارتی شراکت داروں کو متنوع بنانے پر توجہ دے رہا ہے۔

اگر ہم پاکستان کے ساتھ افغانستان کی تجارت کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخی تعلقات کے باوجود حالیہ برسوں میں یہ تجارتی سرگرمیاں مختلف رکاوٹوں کا شکار رہی ہیں۔ 2023ء میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 1.5 سے 2 بلین ڈالر کے قریب تھا مگر حالیہ سرحدی اور سفارتی کشیدگی نے ان تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بار بار سرحدی بندش جیسے کہ طورخم اور چمن بارڈر کی بار بار بندش افغانستان کے تاجروں کے لیے مشکلات کا باعث بنتی رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان نے ایران بھارت اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ کیا ہے تاکہ پاکستان پر انحصار کم کیا جا سکے۔

مثال کے طور پر ایران کے ساتھ افغانستان کی تجارت کا حجم 2023ء میں 2 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا جس میں افغان تاجروں نے ایرانی بندرگاہ چابہار کے ذریعے بھارتی مارکیٹ تک رسائی حاصل کی۔ اسی طرح چین کے ساتھ افغانستان نے 548 ملین ڈالر کا تجارتی حجم حاصل کیا جس میں 536 ملین ڈالر کی درآمدات شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ عالمی مارکیٹ تک رسائی آسان بنائی جا سکے اور کسی ایک ملک پر انحصار کو محدود کیا جا سکے۔

تجارت میں بار بار کی سرحدی بندش سرحدی مسائل اور دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی کمی اس تعلقات میں بگاڑ کی اہم وجوہات ہیں۔ اگر پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ ان مسائل کا مستقل حل نکالا جائے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سرحدی امور پر مستقل تجارتی راہداری فراہم کرے سرحدی رکاوٹوں کو کم کرے اور تجارت کو آسان بنائے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کو سفارتی سطح پر تعلقات کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ تجارت میں استحکام آئے اور خطے میں امن اور خوشحالی کا فروغ ہو۔

افغانستان کی بھارت ایران اور چین کے ساتھ تجارت میں اضافے سے پاکستان کے طویل مدتی اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ تجارتی ماحول کو بہتر بنائے اور اس مسئلے کو سفارتی اور تجارتی حکمت عملی کے ذریعے حل کرے تاکہ خطے میں پائیدار ترقی اور اعتماد سازی کی فضا قائم کی جا سکے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں