پشاور کے مختلف علاقوں میں حالیہ مہینوں کے دوران نوعمر لڑکوں کی پراسرار گمشدگی کے واقعات میں تیزی آئی ہے، جس نے شہریوں اور حکومتی اداروں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان لاپتہ ہونے والوں میں سکولوں اور مدارس کے طالب علم بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ انہیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
گمشدگی کے واقعات میں اضافہ
مصدقہ اطلاعات کے مطابق، پچھلے ایک ماہ کے دوران 20 سے زائد نوعمر لڑکے اور بچے لاپتہ ہو چکے ہیں، اور ان کے حوالے سے متعلقہ تھانہ جات میں گمشدگی کی رپورٹس درج کروائی جا چکی ہیں۔ لاپتہ ہونے والے ان بچوں کی عمریں 18 سال سے کم بتائی جا رہی ہیں، اور ان میں سے بیشتر کا تعلق سکولوں اور مدارس سے ہے۔ ذرائع کے مطابق، روزانہ کی بنیاد پر پشاور کے مختلف علاقوں سے بچوں کے غائب ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال ہونے کا خدشہ
ان گمشدگیوں کے پیچھے مختلف خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، جن میں ایک اہم خدشہ یہ ہے کہ ان بچوں کو دہشت گرد گروہوں کی طرف سے خودکش حملوں یا دیگر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے تیار کیا جا رہا ہو۔ خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی نئی لہر کے تناظر میں یہ خدشہ اور بھی زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی سمگلنگ اور اعضا کی فروخت
گمشدہ بچوں کے حوالے سے ایک اور خدشہ یہ بھی ہے کہ انہیں انسانی سمگلنگ یا جسمانی اعضا کی غیر قانونی فروخت کے لیے اغوا کیا گیا ہو۔ تاہم، ابھی تک کسی انسانی سمگلر گروہ یا اغوا کار کی جانب سے کوئی رابطہ یا تاوان کی طلب نہیں کی گئی ہے۔
والدین کی پریشانی اور حکومتی اداروں کی ناکامی
غائب ہونے والے بچوں کے والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں، جبکہ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے تاحال ان گمشدگیوں کا سراغ لگانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ والدین اور مقامی ذرائع نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھنے اور بروقت کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پولیس کو پہلے ہی ان گمشدگیوں کی کئی رپورٹس موصول ہو چکی ہیں، مگر ابھی تک کوئی قابل ذکر کارروائی یا پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ والدین نے اپیل کی ہے کہ ان گمشدگیوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔
گلگت بلتستان میں بھی ایسے واقعات
یہی نوعیت کے گمشدگیوں کے واقعات گلگت بلتستان میں بھی سامنے آئے ہیں، جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ وہاں بھی نوعمر لڑکے لاپتہ ہو رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعات کسی منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
کیا کیا جا سکتا ہے؟
ماہرین اور سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کو معمولی نہ سمجھا جائے اور فوری طور پر سکیورٹی اداروں کو فعال کر کے تحقیقات کی جائیں۔ پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو مل کر ان گمشدگیوں کا پتہ لگانے اور بچوں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں استعمال ہونے سے بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
والدین نے حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان واقعات کو غیر معمولی سمجھتے ہوئے تیز رفتار کارروائی کریں تاکہ گمشدہ بچوں کو جلد از جلد تلاش کیا جا سکے اور مستقبل میں اس طرح کے مزید واقعات سے بچا جا سکے۔
نتیجہ
پشاور میں بچوں کی گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات نہ صرف والدین کے لیے پریشانی کا باعث ہیں بلکہ یہ پورے ملک کے لیے ایک بڑے خطرے کی علامت ہیں۔ دہشت گردی کی نئی لہر اور انسانی سمگلنگ جیسے عوامل کے پیش نظر ان گمشدگیوں کو معمولی واقعات نہیں سمجھا جا سکتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ متعلقہ ادارے فوری اور مؤثر اقدامات کریں تاکہ نہ صرف گمشدہ بچوں کو بازیاب کیا جا سکے، بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام بھی یقینی بنائی جا سکے۔