قبائلی اضلاع خصوصاً جنوبی وزیرستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ حالیہ ملاقاتوں اور جرگوں میں احمدزئی وزیر، دوتانی سلیمان خیل، اور محسود قبائل کے نمائندوں نے مقامی حکام اور صحافیوں کے ساتھ مل کر علاقائی صورتحال کا جائزہ لیا، تاہم ان ملاقاتوں کے بعد بھی قبائل اور صحافیوں میں شدید عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔
قبائلی نمائندے اور صحافی اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں روز بروز بدامنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر ڈاکہ زنی، منشیات فروشی، اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ریاستی رٹ کے لیے چیلنج بن چکا ہے۔ مقامی عوام کا کہنا ہے کہ ان جرائم کے باعث نہ صرف ان کی زندگیوں میں خوف کا ماحول ہے بلکہ علاقائی ترقیاتی منصوبے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
قبائل کے مطابق حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدے اور ترقیاتی منصوبے ابھی تک زمینی حقیقت کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومتی حکام کی جانب سے فراہم کردہ یقین دہانیاں غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔ مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کو صرف ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر زور نہیں دینا چاہیے، بلکہ سب سے پہلے علاقے میں امن و امان کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
صحافیوں نے بھی ملاقاتوں کے دوران اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ان پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ان مسائل کو نمایاں طور پر اجاگر نہ کریں۔ تاہم، صحافیوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ عوام کی آواز بن کر ان مسائل کو سامنے لاتے رہیں گے، چاہے انہیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
جنوبی وزیرستان میں بدامنی، جرائم اور حکومتی عدم فعالیت نے قبائل اور صحافیوں کو شدید مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ حکومت فوری اقدامات کرے تاکہ علاقے میں امن و امان کی بحالی ممکن ہو اور عوام کا حکومتی اداروں پر اعتماد بحال ہو۔ جب تک یہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے، علاقے کی ترقی ممکن نہیں ہو سکے گی۔
جنوبی وزیرستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے ساتھ ساتھ پولیس کا کردار نہایت تشویشناک حالت میں ہے۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے مقامی میڈیا کو دی گئی معلومات کے مطابق ان کے اختیارات کو کمزور کیا گیا ہے اور افسران دوسروں کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ علاقے میں امن و امان کے قیام میں رکاوٹ بھی بن رہی ہے۔
پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے اختیارات کو تقریباً زیرو کر دیا گیا ہے، جس سے وہ مؤثر طریقے سے اپنے فرائض انجام نہیں دے پا رہے۔ پولیس کی بنیادی ذمہ داری علاقے میں قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہے، لیکن جب انہیں مطلوبہ اختیارات اور وسائل فراہم نہیں کیے جاتے تو ان کی کارکردگی خودبخود مفلوج ہو جاتی ہے۔ اس کمزوری کا نتیجہ یہ ہے کہ علاقے میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور امن و امان کی صورتحال دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔
اہلکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے افسران دیگر بااثر حلقوں کے دباؤ میں ہیں اور ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پولیس کو سیاسی یا دیگر بیرونی عناصر کے زیر اثر کر دیا گیا ہے، جو ایک آزاد اور خودمختار ادارے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس سے عوام میں پولیس پر اعتماد کم ہو جاتا ہے اور وہ جرائم سے تحفظ کے لیے پولیس کی بجائے دیگر غیر قانونی ذرائع کا سہارا لینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اس طرح کی صورتحال میں، پولیس کو آزادانہ اور مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لیے مکمل اختیارات اور وسائل فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر پولیس کو بیرونی اثرات سے آزاد نہ کیا گیا اور ان کے اختیارات بحال نہ کیے گئے، تو جنوبی وزیرستان میں امن و امان کی بحالی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پولیس کی اصلاحات پر غور کرے تاکہ یہ ادارہ اپنی قانونی ذمہ داریاں بہتر انداز میں نبھا سکے اور عوام کا اس پر اعتماد بحال ہو۔