جنوبی وزیرستان (نمائندہ چیغہ نیوز اردو)جنوبی وزیرستان اپر وہ علاقہ ہے جو کئی دہائیوں تک عسکریت پسندوں کے زیر تسلط رہا۔ پاکستانی افواج نے یہاں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف متعدد آپریشنز کیے، جن کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔ جب ریاست نے علاقے میں امن کے قیام کا اعلان کیا اور متاثرین کی واپسی کا عمل شروع ہوا، تو اسی دوران فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام عمل میں آیا اور ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا۔ تاہم، پولیس نظام کی عدم فعالیت، کمزور کارکردگی اور حکومتی عدم توجہ نے اپر وزیرستان کے عوام کو اس نئی تبدیلی کے ثمرات سے محروم رکھا۔
پولیس نظام کی ناکامی کے اسباب:
اپر وزیرستان کی پولیس کو جدید اسلحہ، گاڑیاں، اور کمیونیکیشن آلات کی شدید کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ مناسب تربیت اور آلات کے بغیر جنگ زدہ علاقے میں پولیس اہلکاروں کو اپنی ذمہ داریاں بہتر طریقے سے انجام دینے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
افرادی قوت کی کمی:
اس وسیع علاقے میں پولیس کی تعداد ناکافی ہے، جس کی وجہ سے فورس ہر جگہ بروقت اور مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ پولیس اہلکاروں پر اضافی دباؤ بڑھنے کے سبب ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
انتظامی مسائل:
پولیس فورس میں بدعنوانی اور سیاسی مداخلت کا عنصر بھی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ مقامی سٹیک ہولڈرز کی غیر ضروری مداخلت پولیس کے افسران کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات سے دوچار کرتی ہے۔
ثقافتی رکاوٹیں:
مقامی قبائلی روایات اور ثقافتی رکاوٹیں بھی پولیس کے لیے مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ مقامی لوگوں کی جانب سے پولیس پر بد اعتمادی کی فضا پولیس کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے اور بعض اوقات پولیس کو محتاط رویہ اپنانا پڑتا ہے۔
جغرافیائی چیلنجز:
دور دراز پہاڑی علاقوں تک پولیس کی رسائی میں مشکلات ہیں۔ یہ علاقے جرائم پیشہ عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ پولیس ان تک بروقت نہیں پہنچ پاتی۔
مورال کی کمی:
مسلسل خطرات، وسائل کی عدم دستیابی، اور تنخواہوں میں کمی یا معطلی جیسے عوامل پولیس اہلکاروں کے مورال کو شدید متاثر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اصلاحات کے لیے تجاویز:
وسائل کی فراہمی:
پولیس کو جدید اسلحہ، گاڑیاں، اور ضروری آلات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بہتر انداز میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔
تربیتی پروگرام:
پولیس اہلکاروں کو جدید کورسز اور تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں حالات سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں اور عوام کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلقات قائم کر سکیں۔
تفتیشی نظام کی بہتری:
پولیس تفتیشی نظام کو مؤثر بنانے کے لیے اصلاحات کی جائیں تاکہ مجرموں کو بروقت سزا دی جا سکے اور پولیس کی تفتیشی صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔
عوامی رابطے:
پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد بحال کرنے کے لیے مشترکہ پروگرامز منعقد کیے جائیں۔ مقامی لوگوں کو پولیس میں شامل کیا جائے تاکہ ثقافتی رکاوٹیں کم ہوں۔
مصالحتی کمیٹیوں کا قیام:
پولیس تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کی جائیں تاکہ قبائلی روایات کے تحت جرائم کو جرگہ سسٹم کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
سرکاری عمارتوں کا قیام:
پولیس تھانوں اور چوکیوں کے لیے سرکاری عمارتوں کی تعمیر کی جائے تاکہ پولیس اہلکاروں کو بہتر سہولیات فراہم ہو سکیں۔
مقامی عدالتوں کا قیام:
عدالتی نظام کو وزیرستان میں قائم کیا جائے تاکہ پولیس اہلکاروں کو ٹانک جانے کی بجائے اپنے ضلع میں ہی مقدمات درج کرانے کا موقع ملے۔
ایف آر پی، سی ٹی ڈی، اور ایلیٹ فورس میں اصلاحات:
نئے افراد کو بھرتی کرنے کے بجائے موجودہ لیویز اور خاصہ دار فورس کے افراد کو تربیت دے کر پولیس فورس کا حصہ بنایا جائے۔
نتیجہ:
جنوبی وزیرستان میں پولیس نظام کی بہتری اور قانون کی عملداری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومتی عدم توجہ، وسائل کی کمی، اور عوامی بداعتمادی جیسے مسائل کے حل کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ پولیس نظام کو فعال بنایا جا سکے اور علاقے میں مستقل امن قائم ہو۔