118

دنیا کے مشہور ترین بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کی نئی ناقابل یقین تصاویر سامنے آگئی

ویب (چیغہ نیوز ) دنیا کے مشہور ترین بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کی نئی ناقابل یقین تصاویر سامنے آگئی ٹائی ٹینک کو پیش آنے والے حادثے پر لاتعداد فلمیں، کتابیں اور مضامین لکھے گئے اور دنیا بھر میں لوگ اس حادثے کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں (جیمز کیمرون کی فلم کی مہربانی سے)۔

ٹائی ٹینک کو پیش آنے والے حادثے پر لاتعداد فلمیں، کتابیں اور مضامین لکھے گئے اور دنیا بھر میں لوگ اس حادثے کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں (جیمز کیمرون کی فلم کی مہربانی سے)۔

ایسے ہی کچھ مناظر سامنے آئے ہیں جس میں دنیا کے مشہور ترین بحری ملبے کو اس طرح دکھایا گیا جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔بحر اوقیانوس کی 3800 میٹر گہرائی میں موجود ٹائی ٹینک بہت تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔

فلم ٹائی ٹینک میں اس بحری جہاز کا وہ حصہ بہت مشہور ہوا تھا جہاں ہیرو اور ہیروئین بانہیں پھیلا کر کھڑے ہوتے ہیں-اب زیرآب موجود روبوٹس کی کھینچی گئی تصاویر سے معلوم ہوا ہے کہ 112 سال سے سمندر کی گہرائی میں موجود جہاز کا وہ حصہ ٹوٹ کر تہہ میں گرگیا ہے۔

خیال رہے کہ یہ جہاز اپریل 1912 میں اپنے اولین سفر پر برطانیہ سے امریکا جاتے ہوئے برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوبا تھا جس کے نتیجے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ڈوبنے کے بعد اس جہاز کا ملبہ بھی ایک معمہ بن گیا تھا اور 7 دہائیوں سے زائد عرصے بعد 1985 میں اسے دریافت کیا گیا تھا۔

فلم کے اس سین کے باعث یہ حصۃ بہت زیادہ مشہور ہوگیا تھا / اسکرین شاٹ
فلم کے اس سین کے باعث یہ حصۃ بہت زیادہ مشہور ہوگیا تھا / اسکرین شاٹ

ایک صدی سے زائد عرصے سے سمندر کی تہہ میں موجود اس ملبے کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے، جرثومے اس کے مختلف حصوں کو چاٹ چکے ہیں۔

آر ایم ایس ٹائی ٹینک انکارپوریشن کے روبوٹیک مشن کے دوران یہ تصاویر رواں سال موسم گرما کے دوران کھینچی گئی تھیں۔

کمپنی کے مطابق ٹائی ٹینک کا اگلا حصہ بہت مشہور ہے مگر اب وہ ویسا نہیں رہا جیسا فلموں یا تصاویر میں دکھایا جاتا ہے

سمندر کی تہہ میں گر جانے والے حصے کی تھری ڈی تصویر / فوٹو بشکریہ آر ایم ایس ٹائی ٹینک
سمندر کی تہہ میں گر جانے والے حصے کی تھری ڈی تصویر / فوٹو بشکریہ آر ایم ایس ٹائی ٹینک

۔کمپنی کا کہنا تھا کہ ان تصاویر سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تنزلی کی یاد دہانی ہوتی ہے، لوگ ہمیشہ پوچھتے رہتے ہیں کہ ٹائی ٹینک کتنے عرصے تک سمندر کی گہرائی میں موجود رہے گا، ہم اس کا جواب تو نہیں جانتے مگر ہم رئیل ٹائم میں اسے دیکھ رہے ہیں۔

روبوٹیک مشن کے دوران جولائی اور اگست میں ٹائی ٹینک کی 20 لاکھ سے زائد تصاویر کھینچی گئیں جبکہ گھنٹوں طویل ایچ ڈی ویڈیوز بنائی گئیں۔

ٹائی ٹینک کے ملبے سے کروڑوں سال پرانے دانت سے بنا ہار دریافت

یہ وہ ہار ہے / فوٹو بشکریہ MAGELLAN
MAGELLANیہ وہ ہار ہے / فوٹو بشکریہ

لاکھوں سال قبل دنیا سے معدوم ہو جانے والی شارک مچھلیوں کی نسل میگا لوڈون کے دانت سے بنا ایک سونے کا ہار 111 سال بعد ٹائی ٹینک کے ملبے سے دریافت کیا گیا ہے۔

اس ہار کو اس وقت دریافت کیا گیا جب دنیا کے مشہور ترین بحری ملبے کے ڈیجیٹل اسکیننگ پراجیکٹ پر کام کیا گیا۔

2022 کے موسم گرما میں ایک ڈیپ سی میپنگ کمپنی Magellan Ltd نے اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا تھا۔

اس مقصد کے لیے آبدوزوں کی مدد لی گئی جن کو ایک خصوصی جہاز میں سوار ماہرین نے کنٹرول کیا اور 200 گھنٹوں سے زائد وقت تک ملبے کی لمبائی اور چوڑائی کا سروے کیا گیا۔

ماہرین نے جہاز کی ہر زاویے سے 7 لاکھ سے زیادہ تصاویر لیں اور پھر ان کی مدد سے 3 ڈی ماڈل تیار کیا۔

ان تصاویر کا جائزہ لینے کے دوران اس ہار کو بھی دیکھا گیا جو سمندر کی تہہ میں موجود تھا۔

تصاویر میں سونے کے ایک ہار کو دکھایا گیا ہے جس میں میگا لوڈون کا ایک دانت لگا ہوا ہے۔

ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہ ہار کس کا تھا اور اس کی وہاں موجودگی فی الحال ایک معمہ ہے، تاہم کمپنی کی جانب سے اس کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

شارک کی یہ نسل زمین پر 2 کروڑ 30 لاکھ سال قبل موجود تھی اور اسے اس مچھلی سب سے عظیم الجثہ نسل قرار دیا جاتا ہے۔

یہ شارک اتنی بڑی ہوتی تھی کہ کلر وہیل کو محض 5 نوالوں میں نگل سکتی تھی۔

Magellan کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) رچرڈ پارکنسن نے بتایا کہ یہ دنگ کر دینے والی دریافت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ زیادہ تر افراد کو معلوم نہیں کہ ٹائی ٹینک ڈوبنے کے وقت 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا اور اس کا ملبہ 3 اسکوائر میل کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری ٹیم نے اس ملبے کی مکمل تفصیلات کے اسکیننگ کی جس کے دوران یہ ہار بھی دیکھنے میں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی پابندیوں کے باعث ہمیں جہاز سے کسی چیز کو اٹھانے کی اجازت نہیں تھی مگر ابھی اس ہار کے مالکان کی تلاش کا کام کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ اس اسکیننگ کے دوران اس سے پورے جہاز کی منفرد 3 ڈی تصاویر تیار ہوئیں اور ایسا لگتا ہے کہ اردگرد پانی موجود ہی نہیں۔

ماہرین کو توقع ہے کہ اس ڈیجیٹل اسکین سے اس بات پر روشنی ڈالنے میں مدد ملے گی آخر جہاز کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا جس کے باعث وہ ڈوب گیا۔

یہ جہاز اپریل 1912 میں اپنے اولین سفر پر برطانیہ سے امریکا جاتے ہوئے برفانی تودے سے ٹکرا کر بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا تھا جس کے نتیجے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ایک صدی سے زائد عرصے سے سمندر کی تہہ میں موجود اس ملبے کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے، جرثومے اس کے مختلف حصوں کو چاٹ چکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں