تجزیہ:نثار احمد محسود
افغان تاجروں کی جانب سے واخان کوریڈور کی تعمیر میں امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ تعاون کی پیشکش نہ صرف افغانستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے بلکہ پورے خطے کی اقتصادی ترقی میں بھی کردار ادا کرسکتی ہے۔ طویل جنگ و جدل کے بعد یہ ایک روشن پہلو ہے، جہاں مقامی تاجر ملکی معاشی ڈھانچے کو سنبھالنے اور مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
واخان کوریڈور کے منصوبے کے تحت افغانستان کو چین، وسطی ایشیا اور پاکستان سے جوڑنے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو افغانستان کی تجارتی خودمختاری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ملک کو عالمی منڈیوں تک بھی رسائی فراہم کرے گا۔ اس کوریڈور کی تعمیر سے جہاں افغان عوام کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے، وہیں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھنے سے افغانستان میں دیرپا استحکام بھی آ سکتا ہے۔
افغان نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر کا افغان تاجروں کے اس اقدام کو سراہنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ نئی افغان قیادت داخلی سرمایہ کاری کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ اس منصوبے میں مقامی تاجروں کی شمولیت سے غیرملکی سرمایہ کاروں کی توجہ بھی افغانستان کی جانب مبذول ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ افغان حکومت سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرے۔ اس کے لیے سیکیورٹی، شفافیت اور قانونی تحفظات کا یقینی ہونا نہایت اہم ہے تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کار افغانستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مطمئن ہو سکیں۔
پاکستان کے لیے بھی یہ کوریڈور ایک سنہری موقع بن سکتا ہے۔ اس منصوبے میں شمولیت سے پاکستان کو نہ صرف افغان مارکیٹ تک رسائی ملے گی بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔ مشترکہ اقتصادی حکمت عملیوں کے ذریعے پاکستان اور افغانستان خطے میں استحکام اور معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز کرسکتے ہیں۔
واخان کوریڈور خطے کے تمام ممالک کے لیے اقتصادی ترقی کے ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے، جہاں افغانستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہیں