21

کراچی سے ٹی ٹی پی میں شمولیت اخیتار کرنے والا عطاءالرحمن عرف نعیم بخاری کون ہے ؟

کرچی (چیغہ نیوز ) عطاءالرحمن، جو عسکری دنیا میں “نعیم بخاری” کے نام سے مشہور ہیں، پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے نیٹ ورک میں ایک اہم شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی عسکری سرگرمیوں کی ابتدا 1996ء میں ہوئی جب انہوں نے کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔

عسکری تربیت اور ابتدائی سرگرمیاں
نعیم بخاری نے 1999ء میں عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے افغانستان کا رخ کیا، جہاں انہوں نے شدت پسند گروپوں کے تربیتی کیمپوں میں مہارت حاصل کی۔ ان کا شمار لشکر جھنگوی کے انتہائی سرگرم اور اہم رکن کے طور پر ہوتا تھا۔ افغانستان سے عسکری تربیت مکمل کرنے کے بعد 2002ء میں وہ کراچی واپس آئے اور یہاں اپنے گروپ کا نیٹ ورک مضبوط کیا۔

قید و بند کی صعوبتیں
2002ء سے 2007ء تک نعیم بخاری رینجرز کی تحویل میں رہے، جہاں ان پر مختلف مقدمات چلے۔ اس کے بعد، انہیں 2007ء سے 2012ء تک سکھر پولیس نے منشیات کے الزام میں گرفتار کیا۔ ان کی رہائی 2013ء میں ہوئی، جس کے بعد وہ شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ منتقل ہو گئے۔

دہشت گرد نیٹ ورک میں کردار
رہائی کے بعد بھی، نعیم بخاری کراچی میں اپنے عسکری نیٹ ورک سے مسلسل منسلک رہے اور دہشت گردی کے مختلف منصوبوں میں شامل رہے۔ ان کے گروپ نے کراچی میں اہم عسکری سرگرمیاں جاری رکھیں، جو انہیں ایک خطرناک شخصیت کے طور پر سامنے لاتی ہیں۔ بخاری نے نادرا سے مختلف ناموں پر سات شناختی کارڈ بھی بنوا رکھے تھے تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچ سکیں۔

آخری گرفتاری

PHOTO: tribune

نعیم بخاری کو آخری بار 2016ء میں گرفتار کیا گیا، اور وہ تاحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔ ان کی گرفتاری کے باوجود، ان کے گروپ کے کئی ارکان کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم ہیں۔

ٹی ٹی پی میں شمولیت
حالیہ دنوں میں، نعیم بخاری گروپ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) میں شمولیت اختیار کی، جس کی قیادت قاسم غازی کر رہے ہیں۔ یہ تحریک میں شامل ہونے والا 61واں عسکری گروپ ہے، جس کا نیٹ ورک کراچی میں مضبوط سمجھا جاتا ہے۔

تجزیہ
نعیم بخاری کی زندگی اور ان کی عسکری سرگرمیاں پاکستان میں دہشت گردی کی پیچیدہ اور خطرناک صورتحال کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہیں۔ ان کی گرفتاریوں کے باوجود، ان کے نیٹ ورک اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ الحاق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں