امریکی گلوکارہ بیبی ریکسا کے حالیہ کنسرٹ میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے، جہاں انہوں نے نہ صرف اسلامی تعلیمات کا مذاق اُڑایا بلکہ ہم جنس پرستی کی کھلم کھلا حمایت بھی کی۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب بیبی ریکسا نے اپنے کنسرٹ کے دوران چند غیر محتاط اور ناپسندیدہ جملے کہے جو اسلامی عقائد کے خلاف سمجھے گئے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کی، جو کہ ایک مسلم معاشرے میں ایک انتہائی حساس اور نازک موضوع ہے۔
اسلامی تعلیمات کا مذاق
کنسرٹ کے دوران بیبی ریکسا نے کچھ ایسے بیانات دیے جو بظاہر اسلامی تعلیمات کا مذاق اُڑانے کے مترادف تھے۔ ان کے اس عمل سے موجود حاضرین میں شدید ناراضگی پھیل گئی، جو کہ بڑی تعداد میں مسلم عقائد کی پیروی کرنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ اس واقعہ نے عوام میں ایک بحث چھیڑ دی ہے کہ کس طرح فنکاروں کو مختلف ثقافتوں اور مذاہب کا احترام کرنا چاہیے، خاص طور پر جب وہ ایک بین الاقوامی اسٹیج پر پرفارم کر رہے ہوں۔
ہم جنس پرستی کی حمایت
بیبی ریکسا نے اپنے کنسرٹ میں ہم جنس پرستی کو بھی موضوع بنایا، جسے وہاں موجود حاضرین نے انتہائی ناپسند کیا۔ ان کے اس عمل کو کئی افراد نے مسلم معاشرتی اقدار اور روایات کے منافی قرار دیا۔ جب کنسرٹ میں موجود افراد نے اس کے خلاف ردعمل دیا تو بیبی ریکسا کو فوراً اسٹیج چھوڑنا پڑا۔
عوامی ردعمل
یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بھی تیزی سے پھیل گیا، جہاں مختلف صارفین نے بیبی ریکسا کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ فنکاروں کو مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے حساس موضوعات پر زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اس تنازعے نے فنکاروں کے آزادیٔ اظہار اور مذہبی حساسیت کے مابین ایک نیا سوال اُٹھا دیا ہے۔
نتیجہ
بیبی ریکسا کے اس متنازعہ کنسرٹ نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب بات مذہب اور ثقافت کی ہو تو فنکاروں کو خصوصی احتیاط برتنی چاہیے۔ یہ واقعہ ایک اہم یاد دہانی ہے کہ فنکارانہ آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی کی مذہبی یا ثقافتی حساسیت کو ٹھیس پہنچائی جائے۔